EN हिंदी
غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے | شیح شیری
ghunche se muskura ke use zar kar chale

غزل

غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے

محمد رفیع سودا

;

غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے
نرگس کو آنکھ مار کے بیمار کر چلے

پھرتے ہو باغ سے تو پکارے ہے عندلیب
صبح بہار گل پہ شب تار کر چلے

اٹھتے ہوئے جو دیر سے لی مدرسے کی راہ
تسبیح شیخ شہر کی زنار کر چلے

آئے جو بزم میں تو اٹھا چہرے سے نقاب
پروانے ہی کو شمع سے بیزار کر چلے

آزاد کرتے تم ہمیں قید حیات سے
اس کے عوض جو دل کو گرفتار کر چلے

اٹھ کر ہمارے پاس سے گھر تک رقیب کے
پہنچے گا وہ کوئی جو ہمیں مار کر چلے

لو خوش رہو گھر اپنے میں جس شکل سے ہو تم
دو چار نالے ہم پس دیوار کر چلے

اندوہ و درد و غم نے کیا عزم جب ادھر
ہم کو عدم سے قافلہ سالار کر چلے

سوداؔ نے اپنے خوں کی دیت تم سے یک نگاہ
چاہی تو اتنی بات سے انکار کر چلے

پیارے خدا کے واسطے ٹک اپنے دل کے بیچ
انصاف تو کرو یہ کسے مار کر چلے