EN हिंदी
غنچے کو ہے ترے دہن کی حرص | شیح شیری
ghunche ko hai tere dahan ki hirs

غزل

غنچے کو ہے ترے دہن کی حرص

پیر شیر محمد عاجز

;

غنچے کو ہے ترے دہن کی حرص
سیب کو ہے ترے ذقن کی حرص

یہ نزاکت کہاں یہ لطف کہاں
ہے سمن کو جو اس بدن کی حرص

تیری رفتار وہ کہاں پائے
دیکھی بس آہوۓ ختن کی حرص

گل سے اے عندلیب کہہ دینا
نہ کرے میرے گلبدن کی حرص

ہے قفس میں بھی چین بلبل کو
ہے طبیعی مگر چمن کی حرص

عاجزؔ ایسی ملی ہے خوش گوئی
کرتے ہیں سب مرے سخن کی حرص