غنچے کو ہے ترے دہن کی حرص
سیب کو ہے ترے ذقن کی حرص
یہ نزاکت کہاں یہ لطف کہاں
ہے سمن کو جو اس بدن کی حرص
تیری رفتار وہ کہاں پائے
دیکھی بس آہوۓ ختن کی حرص
گل سے اے عندلیب کہہ دینا
نہ کرے میرے گلبدن کی حرص
ہے قفس میں بھی چین بلبل کو
ہے طبیعی مگر چمن کی حرص
عاجزؔ ایسی ملی ہے خوش گوئی
کرتے ہیں سب مرے سخن کی حرص
غزل
غنچے کو ہے ترے دہن کی حرص
پیر شیر محمد عاجز