غنچے کا جواب ہو گیا ہے
دل کھل کے گلاب ہو گیا ہے
پا کر تب و تاب سوز غم سے
آنسو در ناب ہو گیا ہے
کیا فکر بہار و محفل یار
اب ختم وہ باب ہو گیا ہے
امید سکوں کا ذکر رعنا
سب خواب و سراب ہو گیا ہے
مرنا بھی نہیں ہے اپنے بس میں
جینا بھی عذاب ہو گیا ہے
غزل
غنچے کا جواب ہو گیا ہے
عبدالعزیز فطرت