EN हिंदी
غنچے کا جواب ہو گیا ہے | شیح شیری
ghunche ka jawab ho gaya hai

غزل

غنچے کا جواب ہو گیا ہے

عبدالعزیز فطرت

;

غنچے کا جواب ہو گیا ہے
دل کھل کے گلاب ہو گیا ہے

پا کر تب و تاب سوز غم سے
آنسو در ناب ہو گیا ہے

کیا فکر بہار و محفل یار
اب ختم وہ باب ہو گیا ہے

امید سکوں کا ذکر رعنا
سب خواب و سراب ہو گیا ہے

مرنا بھی نہیں ہے اپنے بس میں
جینا بھی عذاب ہو گیا ہے