غنچہ غنچہ موسم رنگ ادا میں قید تھا
دل وہ ناداں تھا کہ اپنی ہی انا میں قید تھا
آنکھ کی مومی گلی پیاسی تھی پیاسی ہی رہی
شبنمی بادل زمانے کی ہوا میں قید تھا
بے رخی کی گھر کی دیواروں پہ تھی چونا کلی
ذرہ ذرہ اجنبیت کی فضا میں قید تھا
آسماں کے طاق پر سجتے رہے اک اک چراغ
میں زمیں کا چاند اپنے ہی خلا میں قید تھا
رات کے عفریت نے شب خون مارا بے طرح
کاروان صبح زنجیر دعا میں قید تھا
کون تھا وہ جس نے اپنے خون سے لکھا تھا خط
کس کے دل کا رنگ اس برگ حنا میں قید تھا
آنکھ کے آنگن سے خوابوں کا پرندہ اڑ گیا
رات بھر شاہینؔ یادوں کی چتا میں قید تھا
غزل
غنچہ غنچہ موسم رنگ ادا میں قید تھا
شاہین بدر