گناہوں سے نشوونما پا گیا دل
در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل
اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا
اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل
یہ ننھی سی وسعت یہ نادان ہستی
نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل
نہ تھا کوئی معبود پر رفتہ رفتہ
خود اپنا ہی معبود بنتا گیا دل
نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی
جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل
بجائے دل اک تلخ آنسو رہے گا
اگر ان کی محفل میں آیا گیا دل
پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ہے
ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل
کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے
اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل
بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن
ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل
کہی بات جب کام کی میراجیؔ نے
وہیں بات کو جھٹ سے پلٹا گیا دل
غزل
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل
میراجی