گمراہ کہہ کے پہلے جو مجھ سے خفا ہوئے
آخر وہ میرے نقش قدم پر فدا ہوئے
اب تک تو زندگی سے تعارف نہ تھا کوئی
تم سے ملے تو زیست سے بھی آشنا ہوئے
ایسا نہیں کہ دل ہی مقابل نہیں رہا
تیر نگاہ ناز بھی اکثر خطا ہوئے
میری نظر نے تم کو جمال آشنا کیا
مجھ کو دعائیں دو کہ تم اک آئینہ ہوئے
کیا ہوگا اس سے بڑھ کے کوئی ربط باہمی
منزل ہماری وہ تو ہم ان کا پتا ہوئے
اب کیا بتائیں کس کی نگاہوں کی دین تھی
وہ مے کہ جس کے پیتے ہی ہم پارسا ہوئے
سنتا ہوں اک مقام زیارت ہے آج کل
وہ زندگی کا موڑ جہاں ہم جدا ہوئے
وہ آ گئے دوائے غم جاں لیے ہوئے
لو آج ہم بھی قائل دست دعا ہوئے
کب زندگی نے ہم کو نوازا نہیں حفیظؔ
کب ہم پہ باب لطف و عنایت نہ وا ہوئے
غزل
گمراہ کہہ کے پہلے جو مجھ سے خفا ہوئے
حفیظ بنارسی