گمراہ ہو گیا رہ ہموار دیکھ کر
چلنا تھا دل کو جادۂ دشوار دیکھ کر
جو سر جھکا تھا سنگ در یار دیکھ کر
اونچا ہوا ہے پھر رسن و دار دیکھ کر
شوریدگئ سر کو نہ تھا کوئی مشغلہ
دل خوش ہوا ہے راہ میں دیوار دیکھ کر
کیا میں کہوں کہ ہاتھ سے کیوں جام گر پڑا
سرشار ہو گیا تجھے سرشار دیکھ کر
گرچہ یہ دور لفظوں کی بازی گری کا ہے
کرتا ہے وقت فیصلہ کردار دیکھ کر
طوفان تیرگی تھا بہت دہشت آفریں
ہمت بڑھی ہے شمع رخ یار دیکھ کر
دل اور دماغ دونوں میرے ہم سفر ہیں آج
حیرت نہ کیجیے میری رفتار دیکھ کر
شبلیؔ سمند شوق کو مہمیز اک لگی
غالبؔ کی اس زمین کو گلکار دیکھ کر
غزل
گمراہ ہو گیا رہ ہموار دیکھ کر
علقمہ شبلی