EN हिंदी
گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں | شیح شیری
ghumbad-e-zat mein ab koi sada dun to chalun

غزل

گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں

رشید قیصرانی

;

گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں
اپنے سوئے ہوئے ساتھی کو جگا لوں تو چلوں

پھر بکھر جاؤں گا میں راہ میں ذروں کی طرح
کوئی پیمان وفا خود سے میں باندھوں تو چلوں

جانے تو کون ہے کس سمت بلاتا ہے مجھے
تیری آواز کی پرچھائیں کو چھو لوں تو چلوں

بجھ نہ جائیں ترے جلووں کے مقدس فانوس
اپنے بھیگے ہوئے دامن کو نچوڑوں تو چلوں

کتنا گمبھیر ہے کہرام سکوت شب کا
کوئی آواز کا پیکر کہیں دیکھوں تو چلوں

دوش طوفاں سے کوئی موج بلاتی ہے مجھے
ریزہ ریزہ ہے بدن اب اسے چن لوں تو چلوں

کتنی صدیوں کی مسافت ابھی باقی ہے رشیدؔ
ہانپتے جسم کا یہ خول اتاروں تو چلوں