گمان توڑ چکا میں مگر نہیں کوئی ہے
سرائے فکر میں بیٹھا ہوا کہیں کوئی ہے
مرے خیال کو دیتا ہے نو بہ نو چہرے
ہے آس پاس کوئی لمس مرمریں کوئی ہے
مرا یقین کہ دنیا میں ہوں اکیلا میں
صدائے دل مجھے کہتی ہے غم نشیں کوئی ہے
تری تباہی میں شامل نہیں ہے غیر کوئی
اسے تلاش تو کر مار آستیں کوئی ہے
نگاہ سے نہیں جاتا کوئی خیال نما
حواس و ہوش و خرد کے بہت قریں کوئی ہے
مرا تمہارا تعلق بگڑ کے بن گیا ہے
مرے تمہارے خیالات کا امیں کوئی ہے
ورائے ذہن و زماں کس نے کائنات بنی
تو کیسے کہتا ہے کوئی نہیں نہیں کوئی ہے
غزل
گمان توڑ چکا میں مگر نہیں کوئی ہے
عبدالرحمان واصف