گماں تو ٹھیک میں کیسے کہوں یقین بھی ہے
کہ میرے پاؤں کے نیچے کہیں زمین بھی ہے
دلوں میں دنیا بسائے ہوئے تو پھرتے ہو
خیال رکھنا کہ دنیا کے ساتھ دین بھی ہے
ہمارے جیب و گریباں میں سانپ کیا ملتا
اسے خبر ہی نہیں تھی کہ آستین بھی ہے
ترس جو کھا کے کسی جانور پہ شاہ بنے
ہجوم شاہ میں کوئی سبکتگین بھی ہے
سخن شناس نہیں زود گو بھی ہے جاویدؔ
پڑھا لکھا ہی نہیں آدمی ذہین بھی ہے

غزل
گماں تو ٹھیک میں کیسے کہوں یقین بھی ہے
خواجہ جاوید اختر