گمان تک میں نہ تھا محو یاس کر دے گا
وہ یوں ملے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا
کرم کرے گا مرے حال پر مگر پہلے
شرارتاً وہ مجھے غم شناس کر دے گا
شگفتگیٔ چمن پر بہت غرور نہ کر
خزاں کا دور تجھے بد حواس کر دے گا
گیا وہ دور کہ جب خار بھی مہکتے تھے
یہ دور وہ ہے جو پھولوں کو ناس کر دے گا
وہ حادثہ جو ابھی میرے ساتھ گزرا ہے
سنو گے تم تو تمہیں بھی اداس کر دے گا
اسے خبر کہ مرے دونوں ہاتھ خالی ہیں
مجھے یقین ہے وہ التماس کر دے گا
غزل
گمان تک میں نہ تھا محو یاس کر دے گا
ظفر کلیم