EN हिंदी
گمان تک میں نہ تھا محو یاس کر دے گا | شیح شیری
guman tak mein na tha mahw-e-yas kar dega

غزل

گمان تک میں نہ تھا محو یاس کر دے گا

ظفر کلیم

;

گمان تک میں نہ تھا محو یاس کر دے گا
وہ یوں ملے گا کہ مجھ کو اداس کر دے گا

کرم کرے گا مرے حال پر مگر پہلے
شرارتاً وہ مجھے غم شناس کر دے گا

شگفتگیٔ چمن پر بہت غرور نہ کر
خزاں کا دور تجھے بد حواس کر دے گا

گیا وہ دور کہ جب خار بھی مہکتے تھے
یہ دور وہ ہے جو پھولوں کو ناس کر دے گا

وہ حادثہ جو ابھی میرے ساتھ گزرا ہے
سنو گے تم تو تمہیں بھی اداس کر دے گا

اسے خبر کہ مرے دونوں ہاتھ خالی ہیں
مجھے یقین ہے وہ التماس کر دے گا