گماں حد نظر تک کیا تھا لیکن کیا نظر آیا
جدھر دریا کی موجیں تھیں ادھر صحرا نظر آیا
مجھے فرصت کہاں اپنی بصیرت سے میں یہ پوچھوں
وہ کیسا آئنہ تھا کون سا چہرہ نظر آیا
سمندر بند ہو کر رہ گیا تھا جس کی مٹھی میں
تعجب ہے وہ بازی گر سراسیمہ نظر آیا
تو کیا آب رواں سے پیاس اپنی دھل نہیں سکتی
یہ کیسا سلسلہ آخر سرابوں کا نظر آیا
چلو یہ بھی دلاسے کے لیے کچھ کم نہیں رونقؔ
مکاں جب جل گیا تب ابر کا ٹکڑا نظر آیا
غزل
گماں حد نظر تک کیا تھا لیکن کیا نظر آیا
رونق نعیم