EN हिंदी
گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے | شیح شیری
gum-gashta manzilon ka mujhe phir nishan de

غزل

گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے

رشید قیصرانی

;

گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے
میری زمین مجھ کو مرا آسمان دے

زخموں کی آبرو کو نہ یوں خاک میں ملا
چادر مرے لہو کی مرے سر پہ تان دے

یہ دھڑکنوں کا شور قیامت سے کم نہیں
اے رب صوت مجھ کو دل بے زبان دے

یا مجھ سے چھین لے یہ مذاق بلند و پست
یا میرے بال و پر کو کھلا آسمان دے

مانگا تھا میں نے کب یہ جھکی گردنوں کا غم
رزاق غم مجھے غم گردوں نشان دے

سیل سکوت اب تو رگ جاں تک آ گیا
اذن بیان دے مجھے اذن بیان دے

دامن کشادہ پھر سے ہے خاتون غم رشیدؔ
تازہ لہو سے لکھ کے نئی داستان دے