گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے
میری زمین مجھ کو مرا آسمان دے
زخموں کی آبرو کو نہ یوں خاک میں ملا
چادر مرے لہو کی مرے سر پہ تان دے
یہ دھڑکنوں کا شور قیامت سے کم نہیں
اے رب صوت مجھ کو دل بے زبان دے
یا مجھ سے چھین لے یہ مذاق بلند و پست
یا میرے بال و پر کو کھلا آسمان دے
مانگا تھا میں نے کب یہ جھکی گردنوں کا غم
رزاق غم مجھے غم گردوں نشان دے
سیل سکوت اب تو رگ جاں تک آ گیا
اذن بیان دے مجھے اذن بیان دے
دامن کشادہ پھر سے ہے خاتون غم رشیدؔ
تازہ لہو سے لکھ کے نئی داستان دے

غزل
گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے
رشید قیصرانی