EN हिंदी
گم دھندلکوں میں ہوئی راہ گزر تیرے بعد | شیح شیری
gum dhundlakon mein hui rahguzar tere baad

غزل

گم دھندلکوں میں ہوئی راہ گزر تیرے بعد

اقبال حیدری

;

گم دھندلکوں میں ہوئی راہ گزر تیرے بعد
رک گیا جیسے ستاروں کا سفر تیرے بعد

تاب نظارہ کہاں تھی تری جلوت میں ہمیں
ڈھونڈھتی ہے تری صورت کو نظر تیرے بعد

دیکھتے دیکھتے انداز گلستاں بدلا
پھول تھے پھول شجر تھے نہ شجر تیرے بعد

یوں تو دیکھے تھے بہت روپ جہاں کے ہم نے
وہ بھی اک روپ تھا جو آیا نظر تیرے بعد

آرزو لے کے تری چل تو پڑے تھے گھر سے
اب یہ مشکل ہے کہ ہم جائیں کدھر تیرے بعد

فن کو سولی پہ چڑھایا گیا فن کار کے ساتھ
قریہ قریہ بکی ناموس ہنر تیرے بعد

کس قدر تھا رگ جاں میں تو ہماری پیوست
اس حقیقت کی ہوئی ہم کو خبر تیرے بعد

ہے یہ ظلمت ہی مقدر تو پکاریں کس کو
کس سے معلوم کریں اپنی خبر تیرے بعد

یوں فراغت ہے ہر اک کام سے ہم کو جیسے
ختم ہے سلسلۂ شام و سحر تیرے بعد

رونقیں تجھ سے تھیں ساری سو ترے ساتھ گئیں
شہر کا شہر ہوا ایک کھنڈر تیرے بعد

کاش ہو سکتا کسی طرح تجھے بھی معلوم
حال اقبالؔ کا ہے کتنا دگر تیرے بعد