EN हिंदी
گلشن ہے اسی کا نام اگر حیراں ہوں بیاباں کیا ہوگا | شیح شیری
gulshan hai usi ka nam agar hairan hon bayaban kya hoga

غزل

گلشن ہے اسی کا نام اگر حیراں ہوں بیاباں کیا ہوگا

آنند نرائن ملا

;

گلشن ہے اسی کا نام اگر حیراں ہوں بیاباں کیا ہوگا
ہنگام بہاراں جب یہ ہے انجام بہاراں کیا ہوگا

یہ جنگ تو لڑنا ہی ہوگی ہر برگ سے چاہے خوں ٹپکے
کانٹوں سے جو گل ڈر جائے گا دارائے گلستاں کیا ہوگا

الفت کو مٹانے کے در پے دنیا اور میں اس سوچ میں ہوں
الفت نہ رہے گی جب باقی خواب دل انساں کیا ہوگا

میں درد بھی تم سے جی لوں گا تم میرے لیے کچھ غم نہ کرو
مانا کہ پریشاں دل ہوگا ایسا بھی پریشاں کیا ہوگا

جس ہاتھ میں ہے شمشیر و تبر کیا اس سے امید برگ و ثمر
جو شاخ نشیمن توڑے گا معمار گلستاں کیا ہوگا

آواز ضمیر اپنی سن کر ملاؔ نے بنا لی راہ عمل
یہ فکر کبھی اس کو نہ ہوئی انداز حریفاں کیا ہوگا