EN हिंदी
گلشن ہے اسی کا نام اگر حیراں ہوں بیاباں کیا ہوگا | شیح شیری
gulshan hai isi ka nam agar hairan hun bayaban kya hoga

غزل

گلشن ہے اسی کا نام اگر حیراں ہوں بیاباں کیا ہوگا

آنند نرائن ملا

;

گلشن ہے اسی کا نام اگر حیراں ہوں بیاباں کیا ہوگا
ہنگام بہاراں جب یہ ہے انجام بہاراں کیا ہوگا

ساقی کے دیار رحمت میں ہندو و مسلماں کیا ہوگا
اس بزم پاک نہاداں میں آلودۂ ایماں کیا ہوگا

یہ جنگ تو لڑنا ہی ہوگی ہر برگ سے چاہے خوں ٹپکے
کانٹوں سے جو گل ڈر جائے گا دارائے گلستاں کیا ہوگا

الفت کو مٹانے کے در پے دنیا اور میں اس سوچ میں ہوں
الفت نہ رہے گی جب باقی خواب دل انساں کیا ہوگا

میں دور بھی تم سے جی لوں گا تم میرے لیے کچھ غم نہ کرو
مانا کہ پریشاں دل ہوگا ایسا بھی پریشاں کیا ہوگا

جس ہاتھ میں ہے شمشیر و تیر کیا اس سے امید برگ و ثمر
جو شاخ نشیمن توڑے گا معمار گلستاں کیا ہوگا

کس شے پہ ابھی ہم جشن کریں ہر سو کانٹے کوڑا کرکٹ
کچھ رنگ چمن آئے تو سہی گھورے پہ چراغاں کیا ہوگا

جو تشنہ لبوں کے حق کے لیے ساقی سے لڑے وہ رند کہاں
جو دست و دہاں کا خوگر ہے وہ دست و گریباں کیا ہوگا

ساقی کی غلامی کر لے گا اور وہ بھی کچھ قطروں کے لئے
نادان سہی ملا لیکن اتنا بھی وہ ناداں کیا ہوگا

آواز ضمیر اپنی سن کر ملاؔ نے بنا لی راہ عمل
یہ فکر کبھی اس کو نہ ہوئی انداز حریفاں کیا ہوگا