گلشن گلشن شعلۂ گل کی زلف صبا کی بات چلی
حرف جنوں کی بند گراں کی جرم و سزا کی بات چلی
زنداں زنداں شور جنوں ہے موسم گل کے آنے سے
محفل محفل اب کے برس ارباب وفا کی بات چلی
عہد ستم ہے دیکھیں ہم آشفتہ سروں پر کیا گزرے
شہر میں اس کے بند قبا کی رنگ حنا کی بات چلی
ایک ہو دیوانہ اک نے سر تیشے سے پھوڑ لیا
کیسے کیسے لوگ تھے جن سے رسم وفا کی بات چلی
ٹوٹ گئیں نغموں کی طنابیں شعر کے خیمے راکھ ہوئے
بزم سخن میں جب بھی سلیمؔ اس شعلہ نوا کی بات چلی
غزل
گلشن گلشن شعلۂ گل کی زلف صبا کی بات چلی
اصغر سلیم