EN हिंदी
گلشن بھی سجائے ہیں اس نے یہ جھلکا ہے شمشیر میں بھی | شیح شیری
gulshan bhi sajae hain isne ye jhalka hai shamshir mein bhi

غزل

گلشن بھی سجائے ہیں اس نے یہ جھلکا ہے شمشیر میں بھی

مشتاق نقوی

;

گلشن بھی سجائے ہیں اس نے یہ جھلکا ہے شمشیر میں بھی
انساں کے لہو کا کھیل ہوا تخریب میں بھی تعمیر میں بھی

جو فرق ہے وہ ہے ہاتھوں کا جو شوق عمل میں بڑھتے ہیں
یوں ایک ہی نغمہ ایک تڑپ ہے ساز میں بھی شمشیر میں بھی

چن چن کے خرد نے نوچا ہے پھولوں کی قباؤں کو لیکن
کچھ دامن سالم رہ ہی گئے اس سورش دار و گیر میں بھی

یہ صبر کی تلقیں اور ٹوٹے ٹوٹے جملے بہکی سطریں
جو تم نے چھپانا چاہا تھا وہ چھپ نہ سکا تحریر میں بھی

سب اپنی طرح سے کرتے ہیں جینے کے جتن پر کیا کیجے
تدبیر نہیں چلتی اکثر اس کار گہہ تدبیر میں بھی

یہ سادگی جو رنگین بھی ہے یہ خامشی جو تقریر بھی ہے
وہ ایک طرح سے لگتے ہیں تحریر میں بھی تصویر میں بھی