گلوں پر صاف دھوکا ہو گیا رنگیں کٹوری کا
رگ گل میں جو عالم تھا تری انگیا کی ڈوری کا
برابر ایک سے مصرع نظر آتے ہیں ابرو کے
توارد کہئے یا ہے ایک میں مضمون چوری کا
بہت غم کھاتے کھاتے اک نہ اک دن جان جائے گی
ضرر رکھتا ہے اے دلبر نتیجہ سیر خوری کا
ہوا ہے ہم کو اک مطرب پسر کی زلف کا سودا
ہمارا شور وحشت بھی یہ اک پٹا ہے شوری کا
خفا ہو گالیاں دو چاہو آنے دو نہ آنے دو
میں بوسے لوں گا سوتے میں مجھے لپکا ہے چوری کا
اگر تم بوسہ سیب ذقن سے ہو گئے قاتل
گلے پر پھیر دیجے میرے چاقو میوہ خوری کا
کوئی شیدائے عارض ہے کوئی زلفوں کا دیوانہ
کسی کو عشق کالی کا کوئی عاشق ہے گوری کا
کہیں ہو اچھی صورت دیکھ لوں دیدار نظروں سے
مری آنکھوں کو چوروں کی طرح لپکا ہے چوری کا
مسی آلود لب چوسے جو اس کے بل بے شیرینی
مزا آیا مرے منہ میں سیہ پونڈے کی پوری کا
شب غم میں فغاں کرتا ہوں جب تھم جاتے ہیں آنسو
تماشا دیکھو طفل اشک بھی خوگر ہے لوری کا
نہ باندھو شعر میں دزد حنا کا اے قلقؔ مضموں
کہے گا یار شوخی سے یہ ہے مضمون چوری کا
غزل
گلوں پر صاف دھوکا ہو گیا رنگیں کٹوری کا
ارشد علی خان قلق