گلوں کو سننا ذرا تم صدائیں بھیجی ہیں
گلوں کے ہاتھ بہت سی دعائیں بھیجی ہیں
جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں
ہمارا دل ہے اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں
اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید
اک ایسے درد کی تم کو شعاعیں بھیجی ہیں
تمہاری خشک سی آنکھیں بھلی نہیں لگتیں
وہ ساری چیزیں جو تم کو رلائیں، بھیجی ہیں
سیاہ رنگ چمکتی ہوئی کناری ہے
پہن لو اچھی لگیں گی گھٹائیں بھیجی ہیں
تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں
سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں
اکیلا پتا ہوا میں بہت بلند اڑا
زمیں سے پاؤں اٹھاؤ ہوائیں بھیجی ہیں
غزل
گلوں کو سننا ذرا تم صدائیں بھیجی ہیں
گلزار