EN हिंदी
گلوں کی چاہ میں توہین برگ و بار نہ کر | شیح شیری
gulon ki chah mein tauhin-e-barg-o-bar na kar

غزل

گلوں کی چاہ میں توہین برگ و بار نہ کر

علی جواد زیدی

;

گلوں کی چاہ میں توہین برگ و بار نہ کر
بھرے چمن میں یہ سامان انتشار نہ کر

خزاں ریاض چمن ہے خزاں گداز چمن
خزاں کا ڈر ہو تو پھر خواہش بہار نہ کر

بس ایک دل ہے یہاں واقف نشیب و فراز
وفا کی راہ میں رہبر کا انتظار نہ کر

ہجوم غم میں تبسم کا کھیل دیکھ لیا
میں کہہ رہا تھا مرے غم کا اعتبار نہ کر

کہا یہ عشق سے دار و صلیب زنداں نے
مجال ہو تو مری راہ اختیار نہ کر

یہ تازہ تازہ قفس کیا خزاں سے کچھ کم ہیں
ہجوم گل ہی سے اندازۂ بہار نہ کر

نسیم صبح انہیں مسکرا تو لینے دے
ابھی گلوں سے کوئی ذکر ناگوار نہ کر

ادھر ہر ایک نظر میں ہے حسرتوں کا جلوس
ادھر یہ حکم حیا ہے نگاہیں چار نہ کر

یہ پوچھنا ہے کسی دن جناب زیدیؔ سے
کہ آپ نے تو کہا تھا کسی سے پیار نہ کر