گلوں کے چہرۂ رنگیں پہ وہ نکھار نہیں
بہار آئی مگر عالم بہار نہیں
جو ہاتھ آتا ہے دامن تو چھوڑ دیتا ہوں
جنوں نواز ابھی موسم بہار نہیں
کسی کی یاد کا عالم نہ پوچھئے مجھ سے
کبھی قرار ہے دل کو کبھی قرار نہیں
یہ بانکپن یہ ادا یہ شباب کا عالم
تم آ گئے تو کسی کا اب انتظار نہیں
بہار پر بھی خزاں ہی کا رنگ غالب ہے
ہوا زمانے کی گلشن کو سازگار نہیں
ہمارے سامنے وہ ہیں کہیں یہ خواب نہ ہو
اب اپنی آنکھوں پہ بھی ہم کو اعتبار نہیں
خود آ گئے ہیں سمٹ کر نگاہ میں جلوے
وصال دوست ہے یہ رنج انتظار نہیں
مرا مذاق اڑاتا ہے آئینہ لیکن
مری حقیقت غم اس پہ آشکار نہیں
ہماری آبلہ پائی کا فیض کیا کہئے
وہ کون سا ہے بیاباں جو لالہ زار نہیں
بتوں کو پوج رہا ہے ترے تصور میں
گناہ کر کے بھی فیضیؔ گناہ گار نہیں
غزل
گلوں کے چہرۂ رنگیں پہ وہ نکھار نہیں
فیضی نظام پوری