EN हिंदी
غلام سر پہ عبادت ابھی نہ رکھی جائے | شیح شیری
ghulam sar pe ibaadat abhi na rakkhi jae

غزل

غلام سر پہ عبادت ابھی نہ رکھی جائے

خورشید اکبر

;

غلام سر پہ عبادت ابھی نہ رکھی جائے
خدا کے نام بغاوت ابھی نہ رکھی جائے

میں ٹھیک ٹھاک تو کر لوں حسب نسب اپنا
لہو پہ شرط ندامت ابھی نہ رکھی جائے

کہ جس کی آنچ سے جبریل آگہی جھلسیں
انا میں اتنی تمازت ابھی نہ رکھی جائے

ہمارے شہر کی مٹی ہے شر پسند بہت
یہاں فصیل حفاظت ابھی نہ رکھی جائے

بہشت رنگ مرادوں کی جا نمازوں پر
منافقوں کی سیاست ابھی نہ رکھی جائے

سفید پوشیٔ ذلت بہت ہے جینے کو
سر جناب شرافت ابھی نہ رکھی جائے

ہمارے خوں سے عبارت ہے شجرۂ تہذیب
یہاں پہ مہر سیادت ابھی نہ رکھی جائے