غلام سر پہ عبادت ابھی نہ رکھی جائے
خدا کے نام بغاوت ابھی نہ رکھی جائے
میں ٹھیک ٹھاک تو کر لوں حسب نسب اپنا
لہو پہ شرط ندامت ابھی نہ رکھی جائے
کہ جس کی آنچ سے جبریل آگہی جھلسیں
انا میں اتنی تمازت ابھی نہ رکھی جائے
ہمارے شہر کی مٹی ہے شر پسند بہت
یہاں فصیل حفاظت ابھی نہ رکھی جائے
بہشت رنگ مرادوں کی جا نمازوں پر
منافقوں کی سیاست ابھی نہ رکھی جائے
سفید پوشیٔ ذلت بہت ہے جینے کو
سر جناب شرافت ابھی نہ رکھی جائے
ہمارے خوں سے عبارت ہے شجرۂ تہذیب
یہاں پہ مہر سیادت ابھی نہ رکھی جائے
غزل
غلام سر پہ عبادت ابھی نہ رکھی جائے
خورشید اکبر