گلاب مانگے ہے نے ماہتاب مانگے ہے
شعور فن تو لہو کی شراب مانگے ہے
وہ اس کا لطف و کرم مجھ غریق عصیاں سے
گناہ مانگے ہے اور بے حساب مانگے ہے
ہوس کی باڑھ ہر اک باندھ توڑنا چاہے
نظر کا حسن مگر انتخاب مانگے ہے
کہاں ہو کھوئے ہوئے لمحو! لوٹ کر آؤ
حیات عمر گزشتہ کا باب مانگے ہے
مرے کلام میں طاؤس بھی ہے شاہیں بھی
سناں کے ساتھ مرا فن رباب مانگے ہے
چڑھا رہا ہے صلیبوں پہ ہم کو صدیوں سے
زمانہ پھر بھی مقدس کتاب مانگے ہے
نہ جانے کتنی گھٹائیں اٹھی ہیں راہوں میں
مگر ہے پیاس کہ ہر دم سراب مانگے ہے
ہے زخم خوردہ مرے دل کا آئنہ ایسا
خرد کی تیغ سے تھوڑی سی آب مانگے ہے
وہ میری فہم کا لیتا ہے امتحاں شاید
کہ ہر سوال سے پہلے جواب مانگے ہے
بکھر گیا تھا جو کل رات کرچیوں کی طرح
مری نگاہ وہ ٹوٹا سا خواب مانگے ہے
کرامت اس سے جو پوچھوں کہ زندگی کیا ہے
جواب دینے کے بدلے حباب مانگے ہے
غزل
گلاب مانگے ہے نے ماہتاب مانگے ہے
کرامت علی کرامت