EN हिंदी
گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو | شیح شیری
gulab hath mein ho aankh mein sitara ho

غزل

گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو

پروین شاکر

;

گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو
کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو

میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں
جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو

کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو

قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو

یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا
کہیں ہوا کا ہی اس نے نہ روپ دھارا ہو

افق تو کیا ہے در کہکشاں بھی چھو آئیں
مسافروں کو اگر چاند کا اشارا ہو

میں اپنے حصے کے سکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو

اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے
وہ چاہے نظم کا ٹکڑا کہ نثر پارہ ہو