گلاب سرخ سے آراستہ دالان کرنا ہے
پھر اک شام وصال آگیں تجھے مہمان کرنا ہے
سوا تیرے ہر اک شے کو ہٹا دینا ہے منظر سے
اور اس کے بعد خود کو بے سر و سامان کرنا ہے
میں اپنا دشت اپنے ساتھ لے کر گھر سے نکلا ہوں
فنا کرنا ہے خود کو اور علی الاعلان کرنا ہے
وفا کے گوشوارے میں مرا پہلا خسارہ تو
ترے ہی نام پر درج آخری نقصان کرنا ہے
میں تیری بارگہہ میں نقد جاں تک نذر کر آیا
تو کیا کچھ اور بھی مجھ کو ادا تاوان کرنا ہے
حسنؔ کو بے وفا کہنے میں دکھ تو ہوگا تجھ کو بھی
مگر یہ کار مشکل تو نے میری جان کرنا ہے
غزل
گلاب سرخ سے آراستہ دالان کرنا ہے
حسن عباس رضا