EN हिंदी
گلاب سرخ سے آراستہ دالان کرنا ہے | شیح شیری
gulab-e-surKH se aarasta dalan karna hai

غزل

گلاب سرخ سے آراستہ دالان کرنا ہے

حسن عباس رضا

;

گلاب سرخ سے آراستہ دالان کرنا ہے
پھر اک شام وصال آگیں تجھے مہمان کرنا ہے

سوا تیرے ہر اک شے کو ہٹا دینا ہے منظر سے
اور اس کے بعد خود کو بے سر و سامان کرنا ہے

میں اپنا دشت اپنے ساتھ لے کر گھر سے نکلا ہوں
فنا کرنا ہے خود کو اور علی الاعلان کرنا ہے

وفا کے گوشوارے میں مرا پہلا خسارہ تو
ترے ہی نام پر درج آخری نقصان کرنا ہے

میں تیری بارگہہ میں نقد جاں تک نذر کر آیا
تو کیا کچھ اور بھی مجھ کو ادا تاوان کرنا ہے

حسنؔ کو بے وفا کہنے میں دکھ تو ہوگا تجھ کو بھی
مگر یہ کار مشکل تو نے میری جان کرنا ہے