گلاب چہرہ پہ شب کا اعجاز بولتا ہے
وہ چپ ہے لیکن نظر کا انداز بولتا ہے
میں جیسے خوشبو کی بارشوں میں نہا رہا ہوں
ہوا کے ہونٹوں سے کوئی گلباز بولتا ہے
مجھی میں روشن چراغ نغمہ مگر ابھی تک
مجھے گماں ہے کہ پردۂ ساز بولتا ہے
پکارتی ہے کوئی صدا مجھ کو دشت جاں سے
یہ تو ہے یا میرا وہم آواز بولتا ہے
پرند ہر چند قید تو ہو گیا ہے لیکن
ہر اک بن مو سے جوش پرواز بولتا ہے
غزل
گلاب چہرہ پہ شب کا اعجاز بولتا ہے
مرتضی علی شاد