گل یاد نہ امواج نسیم سحری یاد
کچھ بھی نہیں جز عالم بے بال و پری یاد
خورشید سحر عارض مہتاب کا عالم
نظروں کو ابھی تک ہے تری جلوہ گری یاد
سوئے حرم و دیر کبھی رخ نہ کریں گے
جن کو مرے ساقی کی ہے رنگیں نظری یاد
جلووں کا تقاضا نہیں کرتی نظر ان کی
رہتی ہے جنہیں حسن کی دیوانہ گری یاد
یہ وقت بہ ہر حال گزر جائے گا لیکن
رہ جائے گی آہوں کی ہمیں بے اثری یاد
میں وہ ہوں کہ پردہ میں تجھے دیکھ چکا ہوں
شاید ہو تجھے میری وسیع النظری یاد
مے خانہ تھا اور شغل مے ناب تھا شاعرؔ
اب تک ہے مجھے دامن زاہد کی تری یاد

غزل
گل یاد نہ امواج نسیم سحری یاد
شاعر فتح پوری