گل پوش بام و در ہیں مگر گھر میں کچھ نہیں
یہ سب نظر کا نور ہے منظر میں کچھ نہیں
موجوں کا اضطراب ہو یا گوہر حیات
احساس کا فسوں ہے سمندر میں کچھ نہیں
پرچھائیوں کا ناچ ہے ویران صحن میں
آسیب شب ہے اور مرے گھر میں کچھ نہیں
منزل سے بے نیاز چلے جا رہے ہیں لوگ
بھٹکے ہوؤں کی آنکھ کے پتھر میں کچھ نہیں
دن رات جھانکتا ہے دریچوں سے ذہن کے
افکار کا جمال ہے پیکر میں کچھ نہیں
ذوقیؔ گلی گلی میں ہیں تکیے فریب کے
اغراض کی صدا ہے قلندر میں کچھ نہیں
غزل
گل پوش بام و در ہیں مگر گھر میں کچھ نہیں
ذوقی مظفر نگری