گل و سمن کی طرح دل میں ہنس رہے ہیں ہم
یہ اور بات بظاہر بجھے بجھے ہیں ہم
کوئی بھی واہمہ گمراہ کر نہیں سکتا
ترے خیال کی زنجیر میں بندھے ہیں ہم
کبھی تو الجھا کئے کیسے کیسے لوگوں سے
کبھی تو ایسے ہوا خود سے لڑ پڑے ہیں ہم
نگار خانے میں تصویر خستہ تر کی طرح
کسی کے سامنے کب سے سجے ہوئے ہیں ہم
کئے ہیں اوروں پہ تنقید و تبصرے لیکن
خود اپنا جائزہ اب تک نہ لے سکے ہیں ہم
ہمیشہ آپ کو سمجھا کہ آپ اپنے ہیں
ہمیشہ آپ نے سمجھا کہ دوسرے ہیں ہم
کمالؔ ہم سے خوشامد کسی کی ہو نہ سکی
اس اعتبار سے مشہور سرپھرے ہیں ہم

غزل
گل و سمن کی طرح دل میں ہنس رہے ہیں ہم
کمال جعفری