EN हिंदी
گل نہیں خار سمجھتے ہیں مجھے | شیح شیری
gul nahin Khaar samajhte hain mujhe

غزل

گل نہیں خار سمجھتے ہیں مجھے

شائستہ سحر

;

گل نہیں خار سمجھتے ہیں مجھے
سب گراں بار سمجھتے ہیں مجھے

ہیں اندھیرے بھی گریزاں مجھ سے
چشم بیدار سمجھتے ہیں مجھے

میری پیشانی پہ محراب نہیں
وہ گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے

دولت درد میرا سرمایہ
کیوں وہ نادار سمجھتے ہیں مجھے

دور بیٹھے ہیں مری محفل سے
وجہ آزار سمجھتے ہیں مجھے

چارہ گر بھی ہیں گریزاں مجھ سے
تیرا بیمار سمجھتے ہیں مجھے

کیا کہوں ان سے مآل الفت
جو تری ہار سمجھتے ہیں مجھے

میری غربت نہیں کھلتی مجھ پر
لوگ زردار سمجھتے ہیں مجھے

میرا اثبات محبت ہے مری
اور وہ انکار سمجھتے ہیں مجھے

میں نہیں بزم سے جانے والی
اہل‌ دربار سمجھتے ہیں مجھے

کب سمجھنا وہ مجھے چاہتے ہیں
کار دشوار سمجھتے ہیں مجھے

کیوں سحرؔ حال سناؤں ان کو
میرے غم خوار سمجھتے ہیں مجھے