گل مرقع ہیں ترے چاک گریبانوں کے
شکل معشوق کی انداز ہیں دیوانوں کے
نہ رکیں گے در و دیوار سے زندانوں کے
خود بخود پاؤں اٹھے جاتے ہیں دیوانوں کے
پینگ وحشت میں بڑھے ہیں ترے دیوانوں کے
اب بیاباں بھی انہیں صحن ہیں زندانوں کے
ایک کیا جن کے ہر اک ذرے میں گم ہوں سو حشر
ہم بگولے بنے ایسے کئی میدانوں کے
کعبہ و دیر میں ہوتی ہے پرستش کس کی
مے پرستو یہ کوئی نام ہیں مے خانوں کے
کچھ اس انداز سے آ بیٹھے ہیں وہ شمع کے پاس
دیکھ کر دور سے پر جلتے ہیں پروانوں کے
لے گیا آپ کے دیوانوں کو سودائے بہار
در و دیوار ہیں ٹوٹے ہوئے زندانوں کے
جام ہے توبہ شکن توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
ہاتھ کیوں کھینچ لیا پھیر کے خنجر تو نے
سر جگہ سے نہیں اٹھتے ہیں گراں جانوں کے
در سے بڑھنے نہیں دیتا ہے مجھے ذوق سجود
میں ہوں نقش کف پا ہیں تری دربانوں کے
نہیں گنتی میں مگر بزم سخن ہے روشن
آج میں شمع ہوں مجمع میں سخن دانوں کے
قطرے ہیں کوثر و تسنیم کف ساقی میں
خم افلاک تو پیمانے ہیں مے خانوں کے
وسعت ذات میں گم وحدت و کثرت ہے ریاضؔ
جو بیاباں ہیں وہ ذرے ہیں بیابانوں کے
واہ کیا نامۂ اعمال ہیں دیوانوں کے
کہ فرشتے لیے ٹکڑے ہیں گریبانوں کے
ہوش اڑتے ہوئے دیکھے نہیں انسانوں کے
لطف مے خانوں میں آتے ہیں پری خانوں کے
نقش پا رہ نہیں سکتے ترے دیوانوں کے
اے جنوں صحن بہت تنگ ہے زندانوں کے
پر پرواز بنے خود شرر شمع کبھی
شرر شمع بنے پر کبھی پروانوں کے
اپنے کوچے میں جو دیکھا تو وہ ہنس کر بولے
چھاننے والے کہاں آئے بیابانوں کے
ذکر کیا اہل جنوں کا کہ جب آتی ہے بہار
وہ تو وہ رنگ بدل جاتے ہیں زندانوں کے
آج بت بیٹھے ہیں تقدیر کے مالک بن کر
اب جو لکھا ہو مقدر میں مسلمانوں کے
بام تک تیرے ذریعہ ہے رسائی کی یہی
دور سے جھک کے قدم لوں ترے دربانوں کے
ان کے بکھرے ہوئے گیسو نہیں ہٹتے رخ سے
آج نکلے ہیں وہ جھرمٹ میں نگہبانوں کے
ساتھ والوں میں مرے کوہ کن و قیس بھی ہیں
میرے قصے نہیں ٹکڑے کوئی افسانوں کے
چشم یعقوب بنے حلقۂ زنجیر کی آنکھ
کبھی تقدیر سے دن پھرتے ہیں زندانوں کے
غیرت حق کو ہو کیا جوش جب اعمال یہ ہیں
کم ہے جو کچھ ہو مقدر میں مسلمانوں کے
دور سے دیکھ کے پھرنا وہ مرا الٹے پاؤں
اف وہ بدلے ہوئے تیور ترے دربانوں کے
مہ و انجم سے ٹپکتا ہے یہی راتوں کو
ان میں ٹوٹے ہوئے ساغر بھی ہیں مے خانوں کے
انہیں ٹھکراتے چلو حشر میں لطف آئے گا
انہیں قبروں میں ہیں مارے ہوئے ارمانوں کے
نکلی جاتی ہے زمیں پاؤں کے نیچے سے ریاضؔ
کیوں دعا کو نہ اٹھیں ہاتھ مسلمانوں کے
غزل
گل مرقع ہیں ترے چاک گریبانوں کے
ریاضؔ خیرآبادی