گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح
دل پریشان ہے گرد رم آہو کی طرح
جو گل اندام مکینوں کو ترستے ہیں ہنوز
شہر میں کتنے کھنڈر ہیں مرے پہلو کی طرح
زلف گیتی کو بھی آئینہ و شانہ مل جائے
تم سنور جاؤ جو آرائش گیسو کی طرح
رقص کرتا ہے زر و سیم کی جھنکار پہ فن
مرمریں فرش پہ بجتے ہوئے گھنگھرو کی طرح
آج بھی شعبدۂ اہل ہوس ہے انصاف
دست بقال میں پرکار ترازو کی طرح
محشرستان سکوں ہے مری ہستی ماہرؔ
کسی شہباز کے ٹوٹے ہوئے بازو کی طرح
غزل
گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح
اقبال ماہر