EN हिंदी
گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے | شیح شیری
gul ke hone ki tawaqqo pe jiye baiThi hai

غزل

گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے

ماہ لقا چنداؔ

;

گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے

کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے

تیر و شمشیر سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگاہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے

تیرے رخسار سے تشبیہ اسے دوں کیوں کر
شمع تو چربی کو آنکھوں میں دیئے بیٹھی ہے

تشنہ لب کیوں رہے اے ساقیٔ کوثر چنداؔ
یہ ترے جام محبت کو پیے بیٹھی ہے