گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے
کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے
تیر و شمشیر سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگاہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے
تیرے رخسار سے تشبیہ اسے دوں کیوں کر
شمع تو چربی کو آنکھوں میں دیئے بیٹھی ہے
تشنہ لب کیوں رہے اے ساقیٔ کوثر چنداؔ
یہ ترے جام محبت کو پیے بیٹھی ہے
غزل
گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے
ماہ لقا چنداؔ