EN हिंदी
گل ہیں تو آپ اپنی ہی خوشبو میں سوچئے | شیح شیری
gul hain to aap apni hi KHushbu mein sochiye

غزل

گل ہیں تو آپ اپنی ہی خوشبو میں سوچئے

ظفر صہبائی

;

گل ہیں تو آپ اپنی ہی خوشبو میں سوچئے
جو کچھ بھی سوچنا ہے وہ اردو میں سوچئے

دل میں اگر نہیں ہے کسی زخم کی نمود
سرخی کہاں سے آ گئی آنسو میں سوچئے

یہ مسئلہ نہیں کہ جلیں گے کہاں چراغ
کیسے ہوائیں آئیں گی قابو میں سوچئے

یوں سرسری گزریے نہ اس دشت کرب سے
وحشت کہ اضطراب ہے آہو میں سوچئے

کچھ تو خبر نکالئے کیسے لگا یہ روگ
کیوں ڈھل رہا ہے آدمی وستو میں سوچئے

کی آپ نے جو پرسش احوال شکریا
ہم کیسے ہوں گے سلطنت ہو میں سوچئے

خود پوچھتی ہے آپ سے تنہائی آپ کی
مہتاب کیوں ہے رات کے پہلو میں سوچئے

وہ جس کا قرب آپ کو ملنا محال ہو
کیا ہو جو بیٹھ جائے وہ بازو میں سوچئے