گلعذار اور بھی یوں رکھتے ہیں رنگ اور نمک
پر مرے یار کے چہرے کا سا ڈھنگ اور نمک
حسن اس شوخ کا ہے بس کہ ملیح اس کی نگاہ
دل پہ کرتے ہیں مرے کار خدنگ اور نمک
غنچۂ گل میں و بلبل میں ہوئی بے مزگی
دیکھ گلشن میں دہن یار کا تنگ اور نمک
درد ہجراں سے بتنگ آپی ہوں ناصح سے کہو
زخم پر میرے نہ چھڑکے یہ دبنگ اور نمک
سخن وعظ و نصیحت دل پر خوں کو حضورؔ
یوں ہے جیوں شیشۂ مے کے لئے سنگ اور نمک
غزل
گلعذار اور بھی یوں رکھتے ہیں رنگ اور نمک
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی