گہر کو جوہری صراف زر کو دیکھتے ہیں
بشر کے ہیں جو مبصر بشر کو دیکھتے ہیں
نہ خوب و زشت نہ عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں
یہ چیز کیا ہے بشر ہم بشر کو دیکھتے ہیں
وہ دیکھیں بزم میں پہلے کدھر کو دیکھتے ہیں
محبت آج ترے ہم اثر کو دیکھتے ہیں
وہ اپنی برش تیغ نظر کو دیکھتے ہیں
ہم ان کو دیکھتے ہیں اور جگر کو دیکھتے ہیں
جب اپنے گریہ و سوز جگر کو دیکھتے ہیں
سلگتی آگ میں ہم خشک و تر کو دیکھتے ہیں
رفیق جب مرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
تو چارہ گر انہیں وہ چارہ گر کو دیکھتے ہیں
نہ طمطراق کو نے کر و فر کو دیکھتے ہیں
ہم آدمی کے صفات و سیر کو دیکھتے ہیں
جو رات خواب میں اس فتنہ گر کو دیکھتے ہیں
نہ پوچھ ہم جو قیامت سحر کو دیکھتے ہیں
وہ روز ہم کو گزرتا ہے جیسے عید کا دن
کبھی جو شکل تمہاری سحر کو دیکھتے ہیں
جہاں کے آئینوں سے دل کا آئینہ ہے جدا
اس آئینے میں ہم آئینہ گر کو دیکھتے ہیں
بنا کے آئینہ دیکھے ہے پہلے آئینہ گر
ہنر ور اپنے ہی عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں
غزل
گہر کو جوہری صراف زر کو دیکھتے ہیں
شیخ ابراہیم ذوقؔ