گفتگو ترک خامشی ہے فقط
ہم سفر ایک اجنبی ہے فقط
عہد رفتہ کے ولولوں کا نشاں
اک مسلسل سی بیکلی ہے فقط
دیکھنا بھالنا گیا ترے ساتھ
آنکھ مدت سے سوچتی ہے فقط
ہر طرف اک اتھاہ سناٹا
چاپ اپنی ہی گونجتی ہے فقط
ہر طرف بے پناہ تاریکی
اپنی آنکھوں کی روشنی ہے فقط
اجنبیت کے یخ کدوں میں دوست
خود کلامی پہ زندگی ہے فقط
ہم کہاں اور جواز شکوہ کہاں
نالہ اظہار بے کسی ہے فقط
کر حفاظت متاع حیرت کی
حاصل زندگی یہی ہے فقط
اب دماغ سخن بھی ہے کس کو
عمر مدت سے کٹ رہی ہے فقط

غزل
گفتگو ترک خامشی ہے فقط
خورشید رضوی