غبار شب ذرا اس امر کی خبر کرنا
کہاں سے ہے مجھے اب ہجر کا سفر کرنا
یہ موج باد زمانہ ہے بے لحاظ بہت
تم اپنے اپنے چراغوں پہ اک نظر کرنا
رہا نہ اس کو اگر مجھ پہ اعتماد تو پھر
کسی حوالے سے کیا خود کو معتبر کرنا
دعائیں دے کے ہی کرنا ہے اب اسے رخصت
پھر اپنے ساتھ جو ہونا ہے درگزر کرنا
وہاں وہاں مری نیندوں کو جاگتا پانا
جہاں جہاں مرے حصے کی شب بسر کرنا
ہے اک خیال مکیں کب سے خانۂ دل میں
ذرا سی بات پہ کیا اس کو در بدر کرنا
وہ دے رہا تھا مجھے آج بے گھری کی دعا
تو یاد آیا بہت اس کا دل میں گھر کرنا
کہ مانگنا مرا چہرہ جو شہر بے چہرہ
تو اپنے وسعت دامن پہ اک نظر کرنا

غزل
غبار شب ذرا اس امر کی خبر کرنا
نرجس افروز زیدی