EN हिंदी
غبار راہ طلسم زمانہ ہو گئے ہیں | شیح شیری
ghubar-e-rah-e-tilism-e-zamana ho gae hain

غزل

غبار راہ طلسم زمانہ ہو گئے ہیں

مبین مرزا

;

غبار راہ طلسم زمانہ ہو گئے ہیں
ہم ایسے لوگ بھی آخر فسانہ ہو گئے ہیں

رہے ہیں رونق صد آستاں وہ لوگ کہ آج
یہ چند تنکے جنہیں آشیانہ ہو گئے ہیں

جو مثل ابر بہاراں ہیں دوسروں کے لیے
وہ لوگ اپنے لیے تازیانہ ہو گئے ہیں

جہاں پہ آئے تھے اک روز طمطراق کے ساتھ
بہ حسرت آج وہاں سے روانہ ہو گئے ہیں

تو کیا ہوئی وہ تمنا کی دولت بیدار
کہ سارے شوق ہی رسم شبانہ ہو گئے ہیں

وہ لوگ جن کا طلب گار اک زمانہ تھا
کسی کی سادہ دلی کا نشانہ ہو گئے ہیں

کسی کی چشم تغیر کو جن سے نسبت ہے
میں خوش ہوا کہ وہ غم جاودانہ ہو گئے ہیں

اب اس قدر نہیں خالی ہمارا دامن بھی
گناہ ہم سے بھی کچھ فاخرانہ ہو گئے ہیں

وہ اور شے ہے کہ جس نے گھلا دیا مجھ کو
کہ یہ عوارض جاں تو بہانہ ہو گئے ہیں