غبار دشت یکسانی سے نکلا
یہ رستہ میری بے دھیانی سے نکلا
نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے
نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا
نہ نکلا کام کوئی ضبط غم سے
نہ اشکوں کی فراوانی سے نکلا
نہ آنکھیں ہی ہوئیں غرقاب دریا
نہ کوئی عکس ہی پانی سے نکلا
ادھر نکلی وہ خوشبو شہر گل سے
ادھر میں باغ ویرانی سے نکلا
ہوا غرقاب شہر جاں تو یہ دل
یہ دریا اپنی طغیانی سے نکلا
جو نکلا شام دشت کربلا سے
ستارہ خندہ پیشانی سے نکلا
غزل
غبار دشت یکسانی سے نکلا
کاشف حسین غائر