گو ذرا تیز شعاعیں تھیں ذرا مند تھے ہم
تو نے دیکھا ہی نہیں غور سے ہر چند تھے ہم
ہم جو ٹوٹے ہیں بتا ہار بھلا کس کی ہوئی
زندگی تیری اٹھائی ہوئی سوگند تھے ہم
اور بیمار ہوئے جاتے ہیں خاموشی سے
ایک آزار سخن تھا تو تنومند تھے ہم
تیرے خط دیکھ کے اکثر یہ خیال آتا رہا
ریشمیں ریشمیں تحریر پہ پیوند تھے ہم
یہ گیا سال بھی گزرا ہے تو یوں گزرا ہے
دستکیں تھک کے سبھی لوٹ گئیں بند تھے ہم
غزل
گو ذرا تیز شعاعیں تھیں ذرا مند تھے ہم
بکل دیو