گو یہ رکھتی نہیں انسان کی حالت اچھی
پھر بھی سو کام سے دنیا کے محبت اچھی
کیا وہ اچھا ہے اگر صرف ہے صورت اچھی
صورت اچھی جو خدا دے تو ہو سیرت اچھی
وصل میں یہ جو ہوں بے باک تو نکلے مطلب
ایسے موقع پہ حسینوں کی شرارت اچھی
جس میں شوخی نہ شرارت نہ کرشمہ نہ ادا
ایسے معشوق سے مٹی کی ہے مورت اچھی
دوست ان کا جو ہے برباد تو دشمن ہے خراب
لطف اچھا نہ حسینوں کی عداوت اچھی
شکوہ وہ خوب ہے جس سے ہو لگاوٹ ظاہر
شکر کا جس میں ہو پہلو وہ شکایت اچھی
نہ ہوئی قدر مقدر کی برائی سے حفیظؔ
کیا ہوا آپ نے پائی جو طبیعت اچھی
غزل
گو یہ رکھتی نہیں انسان کی حالت اچھی
حفیظ جونپوری