گو وسیع صحرا میں اک حقیر ذرہ ہوں
رہروی میں صرصر ہوں رقص میں بگولا ہوں
ہر سمدر منتھن سے زہر ہی نکلتا ہے
میں یہ زہر جیون کا ہنس کے پی بھی سکتا ہوں
یہ بھری پری دھرتی اک اننت میلا ہے
اور سارے میلے میں جیسے میں اکیلا ہوں
یوں تو پھول پھبتا ہے ہر حسین جوڑے پر
جس نے چن لیا مجھ کو میں اسی کا بیلا ہوں
کل ہر ایک جلوے میں لاکھ جلوے پیدا تھے
میں کہ تھا تماشائی آج خود تماشا ہوں
زندگی کے رستوں پر زخم خوردہ دیوانہ
کہہ رہا تھا زیدیؔ سے میں بھی آپ جیسا ہوں
غزل
گو وسیع صحرا میں اک حقیر ذرہ ہوں
علی جواد زیدی