EN हिंदी
گو ترے شہر میں بھی رات رہے | شیح شیری
go tere shahr mein bhi raat rahe

غزل

گو ترے شہر میں بھی رات رہے

سخاوت شمیم

;

گو ترے شہر میں بھی رات رہے
صبح تک تشنۂ حیات رہے

درد کا چاند بجھ گیا لیکن
غم کے تارے تمام رات رہے

اور بھی ہیں تعلقات مگر
غم کے رشتے سے میری بات رہے

زندگی میں اجل سے پہلے ہی
کیسے جانکاہ سانحات رہے

ہم کو ان سے شکایتیں ہیں شمیمؔ
لوگ مرہون التفات رہے