گو تہی دامن ہوں لیکن غم نہیں
تیرے دامن کا سہارا کم نہیں
آج ہی یہ بات اے ہمدم نہیں
ایک مدت سے کوئی عالم نہیں
جز ترے دل میں کسی کا غم نہیں
تجھ سے اتنا رابطہ بھی کم نہیں
جب قدم اٹھے تو رکتے ہیں کہیں
آج منزل ہی نہیں یا ہم نہیں
آنکھ ہم آشفتہ حالوں سے ملائے
گردش دوراں میں اتنا دم نہیں
دونوں عالم بھی مخالف ہوں تو کیا
مطمئن ہوں میں کہ تو برہم نہیں
دل میں اتنی بس چکی ہے ان کی یاد
وہ بھلا بھی دیں تو کوئی غم نہیں
ہم سے پوچھو ضبط غم کی لذتیں
رونے والوں کو شعور غم نہیں
ہم سے وہ ترک تعلق کر چکے
اور پھر ان کی محبت کم نہیں
اپنے اپنے غم میں ہے ہر آدمی
آدمی کو آدمی کا غم نہیں
اہرمن اپنی جگہ ہے اہرمن
فطرت انساں بھی لیکن کم نہیں
غم ہے اس دنیا میں جان زندگی
زندگی میں غم نہ ہو تو ہم نہیں
آہ انجام غم دل اے شمیمؔ
رو رہا ہوں اور آنکھیں نم نہیں
غزل
گو تہی دامن ہوں لیکن غم نہیں
شمیم جے پوری