گو مبتلائے گردش شام و سحر ہوں میں
پھر بھی دیار عشق میں چیز دگر ہوں میں
میں چاہتا ہوں جس کو وہ دلبر تم ہی تو ہو
تم ڈھونڈتے ہو جس کو وہ اہل نظر ہوں میں
پیر حرم کا قول ہے میں شب گزیدہ ہوں
پیر مغاں کی رائے میں نور سحر ہوں میں
اہل چمن کی کشمکش روزگار کی
تاریکیٔ حیات میں مثل قمر ہوں میں
روشن مرے وجود سے سرو و سمن ہوئے
صحن چمن کے واسطے نور سحر ہوں میں
میں مانتا نہیں کہ وہ غفلت شعار ہے
رسم وفا کے زیر اثر کس قدر ہوں میں
امید کر رہا ہوں میں تکمیل شوق کی
کس کو بتاؤں کس قدر آشفتہ سر ہوں میں
گو میں رہ حیات میں بے دست و پا ہوا
پھر بھی محیط عشق میں محو سفر ہوں میں
میرا مقابلہ نہیں پرواز فکر میں
حالانکہ جوش عشق میں بے بال و پر ہوں میں
ارض و سما کے راز دروں سے ہوں آشنا
گویا شریک محفل شمس و قمر ہوں میں
مجھ کو خبر ہے کیا ہے پس پردۂ نماز
گو شیخ کا خیال ہے کہ بے خبر ہوں میں
غزل
گو مبتلائے گردش شام و سحر ہوں میں
زاہد چوہدری