گو مرے دل کے زخم ذاتی ہیں
ان کی ٹیسیں تو کائناتی ہیں
آدمی شش جہات کا دولہا
وقت کی گردشیں براتی ہیں
فیصلے کر رہے ہیں عرش نشیں
آفتیں آدمی پہ آتی ہیں
کلیاں کس دور کے تصور میں
خون ہوتے ہی مسکراتی ہیں
تیرے وعدے ہوں جن کے شامل حال
وہ امنگیں کہاں سماتی ہیں
غزل
گو مرے دل کے زخم ذاتی ہیں
احمد ندیم قاسمی