گو بہ نام اک زبان رکھتی ہے شمع
کب ترا سا بیان رکھتی ہے شمع
تیرے مکھڑے کا سا نمک معلوم
ایک پھیکی سی آن رکھتی ہے شمع
سرفروشی کے مخترع ہم ہیں
گو اب اونچی دکان رکھتی ہے شمع
داغ پر داغ اٹھائے دل کی طرح
کب یہ تاب و توان رکھتی ہے شمع
رووے گو تودہ تودہ کب ایسے
دیدۂ خوں فشان رکھتی ہے شمع
آہ اس داغ دل سے جس سے کہ دست
نت سوئے آسمان رکھتی ہے شمع
کیونکہ پروانہ رشک سے نہ جلے
سب کے آگے فلان رکھتی ہے شمع
کھول مکھڑا کہ ہے یہ مجھ کو یقیں
تجھ سے دعویٰ گمان رکھتی ہے شمع
یہ دل افسردہ وائے قسمت بد
سوز تا استخوان رکھتی ہے شمع
راتوں جاگی ہے مثل قائمؔ کی
تب یہ سوز نہان رکھتی ہے شمع
غزل
گو بہ نام اک زبان رکھتی ہے شمع
قائم چاندپوری