EN हिंदी
گریہ زاری بھی کروں شور مچاؤں میں بھی | شیح شیری
girya-zari bhi karun shor machaun main bhi

غزل

گریہ زاری بھی کروں شور مچاؤں میں بھی

مبشر سعید

;

گریہ زاری بھی کروں شور مچاؤں میں بھی
حالت حال پرندوں کو سناؤں میں بھی

زندگی روز نیا روپ دکھاتی ہے مجھے
عرصۂ جسم کبھی چھوڑ کے جاؤں میں بھی

حضرت قیس اگر آپ اجازت دے دیں
کبھی وحشت کے لیے دشت میں آؤں میں بھی

سارے ماحول کو دے دوں کسی تعبیر کا وجد
اپنی مستی میں کوئی خواب سناؤں میں بھی

میں کوئی عشق کروں ہار کے جیتا ہوا عشق
یعنی عشاق میں کچھ نام کماؤں میں بھی

آج تنہائی کے منظر نے سجھایا ہے سعیدؔ
موسم ہجر کی تصویر بناؤں میں بھی